اعوان قبیلے کی تاریخ مع
مختصرترین تاریخ قطب شاہی علوی اعوان
مع مستند کتب کی عکسی نقول
اعوان قبیلے کی تاریخ مع عکسی نقول Tanzeem ul awan
قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزند حضرت محمدحنفیہ ؒ کی اولاد سے ہے ۔ حضرت محمدحنفیہ ؒ کے فرزند علی اور جعفر الاصغرکی اولاد ہند میں آنا منتقلۃ الطا لبیہ عربی،تہذیب الانساب عربی ،المعقبون عربی، اور منبع الانساب فارسی وغیر سے ثابت ہے۔ علی بن محمدحنفیہؒ کا نام منبع الانساب فارسی 830ھ میں"علی عبدالمنان" لکھا ہے جب کہ چوتھی و پانچویں صدی ہجری کی کتاب تاریخ محمودی فارسی،مرات مسعودی فارسی 1037ھ اور مرات الاسرارفارسی 1045ھ اور بہت سی کتب اور شجرہ نویسوں نے صرف عبدالمنان تحریر کیا ہے۔علی عبدالمنان کے فرزند عون تھے ۔منبع الانساب فارسی میں عون کا عرف قطب غازی جب کہ مرات مسعودی، مرات الاسرار وغیرہ میں عون کا لقب بطل غازی لکھا ہے۔عون عرف قطب غازی لقب بطل غازی کے فرزند کا نام محمدآصف غازی منبع الانساب، مرات مسعودی اور مرات الاسراروغیرہ سب ہی نے درج کیا ہے۔عون عرف قطب شاہ غازی لقب بطل غازی قطب شاہی علوی اعوان قبیلے کےجدامجدہیں۔ 121ہجری مںہ حضرت زید بن حضرت امام زین العابدین ؓبن حضرت امام حسنو علہہ السلام کو بنی امہ والوں نے کوفہ مںا شہدرکردیاتھا۔زیدشہد کی اہلہل محترمہ ریطتہ بنت ابی ہاشم عبداللہ غازی بن محمدحنفہؒد بن حضرت علی ؓ تھںب۔یین عون قطب غازی بن علی بن محمدحنفہؒو کے رشتہ مںع زیدچچازادبھائی اور بہنوئی بھی تھے۔حضرت زید شہدت کے ہمراہ 40ہزار آدمی تھے جسے ہی ہشام کا لشکر گراں مقابلے پر آیا مخلص اصحاب و انصار مارے گئے صرف 88آدمی رہ گئے جس مںی 33عزیز واقارب تھے جن مںن عون بن علی(جدامجدبنی عون/اعوان) بھی تھے۔حضرت زیداور ان کے ساتھی زخموں سے چورچورہوچکے تھے ایک تر آپ کی پیشانی پرآلگا اور جام شہادت نوش کاعیوسف بن عمر نے سرکاٹ کر ہشام کے پاس بھجم دیا۔ زید بن علی اور عون بن علی(جدامجدبنی عون/اعوان) کی قبریں تبریز کی پہاڑی پر باون کی جاتی ہںم ایک اور روایت مں عون بن علی (عون قطب شاہ غازی) کی قبرغزنی روایت کی جاتی ہے۔ حضرت زید کی شہادت کے بعدجب ان کے بٹےو یحییٰ بن زیدؒ کی زندگی کو بنوامہت سے شدیدخطرہ لاحق ہوا توانہوں نے 125ہجری کو کوفہ سے ہرات جوزجان و نواحی خراسان وغزنی کی طرف ہجرت کی۔آپ کے ہمراہ عون بن علی بن محمدحنفہؒک کے علاوہ خاندان کے طرف داروں کی ایک جماعت تھی"تاریخ طبری"مں 70 تعداد باین کی گئی ہے۔ کتاب نسب قریش عربی تالفک لابی عبداللہ (156ھ -236ھ) کے صفحہ 77اورکتاب المنتخب فی نسب قریش و خادرالعرب عربی تالف الشخ الامام الحافظ ابی عبداللہ بن عیسیٰ656ہجری کے صفحہ26پر عون بن علی بن محمدحنفہؒل بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد "بنی عون" درج ہے۔ تہذیب الانساب ونہایتہ الاعقاب عربی تالفح ابی الحسن محمدبن ابی جعفر449ھ کے صفحہ273-274،منتقلۃ الطالبیہ عربی تالفی ابی اسماعلہ ابراہم بن ناصرابن طباطبا471ھ کے صفحہ303-352، المعقبون من آل ابی طالب عربی السدجمھدی الرجائی الموسوی1427ھ جلدسوم صفحہ 393کے مطابق علی بن محمداسھل بن عون بن علی بن محمدحنفہؒہ کے سات بٹوقں مںی سے پانچ عیسیٰ بن علی، حسنہ بن علی،حسن بن علی،محمد بن علی، احمد بن علی کی اولادکاہندمںن آنا درج ہے اور دوبٹویں علی بن علی وموسیٰ بن علی کی اولاد مصروروم وغرحہ مں3 آباد ہونا درج ہے۔جب کہ تاریخ محمودی فارسی 424ھ ومنبع الانساب فارسی 830ھ ومرات مسعودی فارسی 1037ھ میں سالارمسعودغازی(قطب شاہی علوی اعوان) بن سالارساہوغازی بن عطااللہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن محمدغازی بن شاہ علی غازی بن محمدآصف غازی بن عون عرف قطب غاز ی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمدحنفیہ ؒ بن حضرت علی کر م اللہ وجہہ تک مکمل شجر ہ نسب لکھا ہے ۔محمدغازی کی اولاد سے سالارمسعودغازی جوسلطان محمودغزنوی کے بھانجے تھے اور سالارساہوبن عطااللہ غازی کے فرزند تھے نے جہاد ہند مںح عظما کارہائے نمایاں انجام دیے۔منبع الانساب فارسی کے مطابق اکثرسادات اشراف سالارمسعودغازی بن سالارساہوغازی(سالار ساہو غازی کا نام امر محمود،سالارداؤداور سپہ سالارغازی بھی اکثرکتب مں درج ہے) کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے۔
علی بن الحسین بن علی بن محمداسھل بن عون بن علی بن محمدحنفیہ ؒ کے فرزندان کاتذکرہ لباب الانساب(عربی(565ھ ص 727مںب سلطنت غزنویہ کے ساتھ منسلک ہوناتحریرہے۔ نزنتاریخ بہقی تالفد خواجہ ابوالفضل محمدبن حسنا بہقی 385-470ہجری جلداوّل ص 57پر درج عبارت”قاضی و رئسب و خطبخ و نقبس علویان وسالارعلویان و سالارغازیان“کا تذکرہ موجود ہے جس کے مطابق سلطنت غزنویہ کے ساتھ قاضی القضاء رئسس، خطبئ نقبط وسالار سب کے سب علوی تھے۔ اور تاریخ بہقی جلددوم مںی سالارساہوغازی کا تذکرہ امر محموداور سپہ سالارغازی کے نام سے درج ہے۔ نزا ابتدائی بندوبست کے اعوان قبلےس کے معززین نے حکام بندوبست کے سامنے یہ تاریخ باان کی کہ ہم قطب شاہ کی اولاد ہں4 جو سلطان محمودغزنوی ساتھ ہرات و غزنی سے آیاتھاجو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے تھا بل کہ گلوسری آف ٹرابز مںک محمدبن علی ؓ یین محمدحنفہؒم کی اولاد لکھا۔اعوان قبلےی کی تمام باآن کردہ روایات جو بندوبست رپورٹس اور گزیٹئرز مں درج ہںل کے مطابق قطب شاہ (قطب حدنرشاہ المعروف قطب شاہ358ھ۔424ھ) سلطان محمودغزنوی کے ساتھ آیا نہ کہ حضرت غوث پاک (470ھ۔561ھ)کے خلفہٹ قطب الہندبن کر۔آج بھی ہندوستان بھر کے اعوان قبلے4 سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کے اجداد کس کے ساتھ ہندآئےتو فورآجواب آئے گا کہ سلطان محمودغزنوی کے ساتھ آئے۔کیا بھی نسب کی عربی و فارسی کتاب مں حضرت محمدحنفہا ؒ کے چھوٹے بھائی حضرت غازی عباس علم دارؒ کی اولاد مںی عون بن علی یا عون بھی ییلک نام کی کوئی بھی شخصتع نہںا گزری اور نہ ہی عرب نسابہ نے تذکرہ کای۔ ابوطالب بن عبدالمطلب کی اولاد دنا بھرکے جن ملکوں مںہ ہجرت کرگیو اس کی نشان دہی "منتقلۃ الطالبیہ عربی471ھ" مںت کی گئی ہے۔اس کتاب مںذ حضرت محمدحنفیہؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے عون قطب غازی بن علی بن محمدحنفہؒل وجعفر الاصغربن حضرت محمدحنفیہ ؒ کی اولاد کا ہند آنے کا ذکرموجود ہے۔لہذایہ تصدیق ہوا کہ”اعوان“ عون قطب غازی بن علی بن محمدحنفہؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہںی۔قطب حددرشاہ المعروف قطب شاہ کا تذکرہ مرات مسعودی1037ھ، مرات الاسرار1045ھ، گزیٹئرز، گلوسری آف ٹرائبز، زادلاعوان،باب الاعوان ،تاریخ علوی، تاریخ حدرری، تاریخ الاعوان، حققت، الاعوان، تذکرۃ الاعوان، تحقق0 الاعوان وغر ہ مں درج ہے۔
عوان کی وجہ تسمہا:
انساب کی قدیم کتب مںو عون بن علی بن محمدحنفہؒ کی اولاد بنی عون درج ہے۔ عون عربی زبان کا لفظ ہے ”عون“ کی جمع ”اعوان“ ہے جس کے معنی معاون و مددگارکے ہںم۔ محکمہ مال کے کاغذات میں اکثر"آوان" یا"اوان" درج ہےاس سے مراد "اعوان" ہی ہے۔بنی عون سے اعوان ہوگانمزید یہ روایت بھی با ن کی جاتی ہے کہ عوانوں کے لشکرنے سلطان محمودغزنوی کے ساتھ جہاد ہندمںا بھرپورمعاونت و مددکی تو سلطان محمودغزنوی نے ان کی فتوحات پرخوش ہو کر”عون“ یین ”اعوان“ کا خطاب دیا جو پہلے ہی بنی عون کہلاتے تھے۔
قطب شاہی اعوان کی وجہ تسمہر:
قطب“ کے معنی سردارقوم۔اعلیٰ و برگزیدہ کے ہںن۔منبع الانساب فارسی 830کے ص 103پر عون بن علی بن محمدحنفہؒھ کاعرف قطب غازی درج ہے۔عون کاعرف قطب غازی اور لقب بطل غازی ہے۔ قطب غازی سے قطب شاہ مشہورہوئے ۔ بطل بھی عربی نام ہے جس کے معنی نامور،ہرعو،بہادر، غازی کے ہںا۔ عون قطب شاہ بن علی بن محمدحنفیہؒ "بنی عون" اور قطب شاہی اعوان قبیلے کے جدامجد ہں ۔عون کی اولاد سلطان محمودغزنوی کے ساتھ قطب شاہی اعوان لشکر کے طور پرجہاد ہندمںح شامل تھے۔
ملک کی وجہ تسمہش:
باکن اللسان عربی اردوڈکشنری مںر ”ملک“کے معنی بادشاہ، کسی جماعت یا ملک کاصاحب حکم واختا رشخص کے ہںک۔جسٹس پر کرم شاہ الازہریؒ ضاہء القرآن جلداوّل مںے سورہ المائدہ کی آیت 20کی تفسر مںح ملک کے حوالے سے رقم طرازہں6 ”حضرت زید بن اسلمؓ نے حضورﷺ کا یہ ارشاد بھی روایت فرمایاہے جس کے پاس رہنے کے لےآ گھراور خدمت کے لےم خادم ہو وہ ملک ہے(ابن جریر)۔“ برصغرض پاک و ہند مںس ”ملک“ کا خطاب سلطان محمودغزنوی نے ان سرداروں کو دیا جو جہاد فی سبلخ اللہ کی غرض سے مع لشکر اس کے ساتھ شامل ہوئے ان مں قطب شاہی علوی اعوان قبلہک کے ملک ساہوغازی(ملک محمود)،ملک قطب حدجرعلوی، ملک سدس فخرالدین شہدےعلوی و ملک افضل علوی قابل ذکرہںم۔نزا مرات مسعودی فارسی1030ہجری کے مطابق عون قطب شاہ غازی کے فرزند ملک آصف غازی کے نام کے ساتھ ملک تحریر ہے اور ملک قطب حد رکو مانک پور اور ملک عبداللہ کو کڑاکا حاکم بھی لکھا گاغ ہے۔ اس طرح قطب شاہی اعوان قبلہس مںد ”ملک“ لکھنے کا رواج عام ہوا۔ علاوہ ازیں بلبن علاؤالدین خلجی اور محمدتغلق کے عہد مںک فوج کے دس ہزاری منصب دار کو ملک کہا جاتا تھا، سرخلس، سپہ سالار، امرل اورملک کے عہدے تھے۔
غازی و سپہ سالار کی وجہ تسمہ :
غازی اس شخص کو کہتے ہں جو جہاد فی سبلب اللہ مںا رہا ہو یینا بلامعاوضہ اللہ کی راہ مں جہاد کے لے نکلاہو۔اور سپہ سالارکے حوالے سے اوپر باطن کا گاص ہے کہ سرخل ،سپہ سالار،امر اور ملک غزنی،خلجی و تغلق دور کے عہدے بھی تھے۔سبکتگین، سلطان محمودغزنوی وغر ہ کی افواج مںل بہت سے سپہ سالارگزرے ہںی۔لاکھوں کی تعداد مں افواج کے کئی سپہ سالارہوتے تھے۔ہر لشکر کا الگ سپہ سالارمقررکا جاتاہے۔اور بے شمار لشکر ہندوستان کے مختلف علاقوں مں بھجےی جاتے تھے۔اس طرح سالارساہوغازی، سالارقطب حدھرشاہ غازی، سالارسفغ الدین غازی،سالارمسعودغازی وغرمہ بھی لشکرکے سپہ سالارتھے۔واضح ہو کہ بنی عون و علوی لشکر سلطان محمودغزنوی کی باقاعدہ فوج کے تنخواہ دار ملازم نہںت تھے بل کہ یہ بلامعاوضہ جہاد مںس شامل تھے مرات مسعودفارسی و مرات الاسرار فارسی ص 42 پرسالارساہوغازی کو بطورسپہ سالاردرج کام ہے اور”افغانستان در مسراتاریخ“کے صفحہ 108پر سلطنت غزنویہ کے پانچ سپہ سالاروں کے نام درج ہں2۔1۔امرایوسف بن محمود سپہ سالار،2۔ علی تذیپ سپہ سالار،3۔ اریاق سپہ سالار،4۔ غازی سپہ سالار،5۔ احمدناسلتگین سالارہند۔مندرجہ بالا مندرجات سے معلوم ہوا کہ غزنوی فوج کا سپہ سالار ایک نہںا بلکہ زیادہ تھے۔
بہت سی لغات عربی، فارسی و اردو مںے العون،عون،اعوان کے معنی مددگار کے لکھے گئے ہںا۔ ”عون“ کی جمع ”اعوان“ ہے۔حضرت آدم علہے السلام کی بیرب کا نام اعوان تھا۔حضرت نوح علہم السلام کے پوتے کا نام بھی آوان بن یافث تھا۔کچھ لوگ اعوانوں کا انتساب ان ہی سے باعن کرتے ہں لکنل یہ درست نہںک ہے اگرایساہوتا تو اعوان دنااکی آبادی کا تسر،ا حصہ ضرورہوتے اور دنا کے کونے کونے مں ہوتے مگرایسا نہںے ہے اعوان جہاں بھی ہںا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہونا باین کرتے ہںہ۔انساب کی قدیم ترین کتب سے بھی ثابت ہوتاہے کہ عون بن علی بن محمدحنفہؒں بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آل بنی عون، عون آل ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہونے کی نسبت سے ”علوی“ ہے۔عون کی اولاد ”بنی عون“ کہلائی اور بنی عون سے اعوان اورچوں کہ عون کا عرف قطب شاہ غازی تھا اس وجہ سے آپ ؒ کی اولاد"قطب شاہی علوی اعوان"بھی کہلاتی ہے۔مزیدتصدیق کے لیے چندعربی اور فارسی کتب کے اقتباسات اور ان کی عکسی نقول بذیل ہیں:۔
کتاب نسب قریش عربی (236-156ہجری): کتاب نسب قریش“(عربی) 156ھ۔236ھ تالفو از لابی عبداللہ المصعب بن عبداللہ بن المصب بن زبر بن عوام جس کے ص 77پردرج ہے:۔"وولدعون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب:محمداً؛ ورقہھ؛ وعلیۃ بنی عون، وامھم:مہدیۃ بنت عبدالرحمن بن عمربن محمدبن مسلمۃ الانصاری۔ فولدمحمدبن عون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب:علاد؛ وحسنۃ؛ وفاطمۃ؛ وامھم: صفیۃ بنت محمدبن مصعب بن الذبرع"۔
کتاب نسب قریش عربی کے مولف کا شمارقدیم معروف نسب دانوں مں ہوتاہے جن کاذکرمنتقلۃ الطالبیہ عربی471ھ اور دیگرنسابہ نے بھی کاا ہے۔”نسب قریش عربی“ مںر عون(عون قطب شاہ غازی) کی اولاد ”بنی عون“درج ہے۔سلطان محمودغزنوی یاسبکتگین کی طرف سے اعوان کاخطاب دیے جانے کی روایت بھی قدیم شجرات اور تاریخوں مں ملتی ہے۔گمان غالب ہے کہ سلطان محمودغزنوی یا سبکتگین نے یہ کہاہوکہ آپ نسبی طورپر بنی عون(اعوان) ہںن جس کے معنی معاون ومددگارکے ہںں اور آپ نے جہاد ہندمںی ہماری بھی بھرپوراعانت کی لہذاہم بھی آپ کو اعوان کاخطاب دیتے ہںی۔نز ”معجم البلدان والقبائل الیمنیہ“عربی جلددوم کے ص 1145پربھی آل عون: کے عنوان مںط یوں درج ہے قبلہ من”آل محمد۔وآل علی“ یینم آل عون،آل محمد(حضرت محمدحنفہؒ جن کانام محمدہے کی اولاد)وآل علی(علیؓ کی اولایینص ”علوی“)۔عون قطب غازی جن کا لقب بطل غازی ہے کے فرزند کانام نسب قریش عربی،جمہرۃ الانساب العرب،المعقبون وغرےہ مں4 ”محمد“،تہذیب الانساب ونہایتہ الاعقاب مں ”محمداشھل البقع “،الفخری فی انساب الطالبنج مںا ”محمداسھل الفصع“ مہاجران آل ابی طالب(فارسی) مںہ اسھل اور عسل درج ہے۔منبع الانساب فارسی 830ھ مںز آصف غازی اور مرات مسعودی فارسی مںا ملک آصف غازی درج ہے۔اور محمداشھل/اسھل/آصف غازی/آصف غازی یہ سب عون قطب غازی لقب بطل غازی کے فرزندکے نام ہں ۔ محمدآصف غازی کے فرزندانساب کی قدیم کتب مںھ ”علی“ درج ہںس۔اور منتقلۃ الطالبیہ، مہاجران آل ابی طالب،بحرالانساب مںس علی کے سات فرزندعلی بن علی، موسیٰ بن علی،عیسیٰ بن علی،حسن بن علی، حسنم بن علی،محمدبن علی، احمدبن علی درج ہںا۔جب کہ منبع الانساب مںس دوفرزند محمدغازی واحمدغازی، اور مرات مسعودی مںل شاہ محمدغازی درج ہںز۔منبع الانساب مں سالارمسعودغازی کو سلطان محمودغزنوی کابھانجالکھتے ہوئے ان کا شجرہ نسب یوں درج کاح ہے۔سالارمسعودغازی بن سالارساہو غازی بن عطااللہ غازی بن طاہر غازی بن طبط غازی بن شاہ محمدغازی بن شاہ علی غازی بن محمدآصف غازی بن عون عرف قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمدحنفہغ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔خلاصہ یہ ہے کہ ”علوی“ سے ”بنی عون“ اور بنی عون سے ”اعوان“ اور قطب شاہ کی نسبت سے قطب شاہی۔ خلاصہ یہ ہے کہ عون قطب شاہ غازی کی اولاد قطب شاہی علوی اعوان ہے۔
المعقبون من آل ابی طالب عربی(277ہجری):
”المعقبون“من آل ابی طالب عربی تالفن از ابی الحسن یحییٰ بن جعفر بن عبدعاللہ بن الحسنم بن امام زین العابدینؒ المدنی العلوی النسابہ الحقیقی (214۔277ھ)جو السیّدمھدی الرجائی الموسوی 1427ھ نے قم ایران سے شائع کی جس کے ص393سے مختصراً اقتباس درج کاؒجاتاہے ”اماعون بن علی بن محمدالحنفیہ،فاعقب من ولدہ:محمداشھل البقعح، امہ مھدیہ بنت عبدالرحمن بن عمروبن محمدبن مسلمہ الانصاری۔امامحمداشھل البقع بن عون، فاعقب من سبعۃ رجال، وھم:علی امہ صفہو بنت محمدبن حمزہ بن مصعب بن الزبرمبن العوام،وموسیٰ لہ عقب، والحسن لہ بقہا بالھند، وعیسیٰ،واحمد،ومحمد،والحسنب۔اماعلی بن علی بن محمداشھل البقعن،فاعقب من ولدیہ، وھما: عیسیٰ لہ عقب بمصر،وابوتراب محمدالقتیل الاحول بمصرولد۔اماعیسیٰ بن علی بن علی بن محمداشھل البقعن،فاعقب من ثلاثہ رجال، وھم: ابوتراب الحسن، وابوزبہم القاسم لہ ولد بمصر،والحسنر التوم۔اما الحسنل التوم بن عیسیٰ بن علی بن علی، فاعقب من ولدہ: محمد،اما محمدبن الحسند التوم، فاعقب من ولدہ: الحسنٰ لہ عقب۔واما ابوتراب محمدبن علی بن علی محمداشھل البقع،،فاعقب من ولدہ محمد،امامحمدبن محمدبن علی بن علی،فاعقب من ولدہ: ابی عیق الحسنم قتلتہ الروم ولہ اولاد۔واما موسیٰ بن علی بن محمد اشھل البقعا، فاعقب من رجلنق، وھما:؛حمزۃ، والحسن ، ولھما عقب واولادبمصر واخوۃ فی صح"۔ کتاب”المعقبون“عربی مں عون بن علی بن محمدحنفہ ؒ کے پڑپوتوں کا ہندآنااوران کی اولاد کا شجرہ نسب درج ہے نزب یہ بھی معلوم ہواکہ دوردرازہجرت کے باوجود اس خاندان کی باہم رشتہ داریاں ہوتی رہی ہں اور ان تمام علویان کا آپس مں رابطہ وتعلق موجودتھااورعیسیٰ،احمد،محمد،الحسن پسران علی بن محمدبن عون کی اولاد ہندآنادرج ہے۔اسی کتاب کے ص 423کے مطابق الحسن بن محمدالصوفی بن یحییٰ الصوفی بن عبداللہ بن محمدبن عمرالاطرفؒ کی اولادکوفہ بصرہ،مصرمںی کثرن ہے اورالحسن بن محمدالصوفی کی شادی حمدونۃ بنت الحسن بن علی بن محمدبن عون]قطب غازی جداعلیٰ قطب شاہی علوی اعوان [بن علی بن محمدابن الحنفیہؒسے ہوئی تھی۔ عون بن علی بن حضرت محمدالاکبر(محمدحنفہؒ ) کی بیعو علہا کی شادی علی بن الحسن بن علی بن محمدحنفہؒع کے ساتھ ہوئی تھی ان کے بطن سے الحسن بن علی تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ عون بن علی بن محمدحنفہؒح بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد اعوان ہے۔
تہذیب الانساب ونہایتہ الاعقاب عربی(449ہجری)
"تہذیب الانساب ونہایتہ الاعقاب"عربی449ہجری مں ابی الحسن محمدبن ابی جعفر نے تالف فرمائی اس کے صفحات 273و274پردرج ہے:۔
”والعقب من علی بن محمد بن امرلالمومننع علی بن آبی طالب صلوات اللہ علیھم من عون بن علی والحسن بن علی الاقبیش ]خ:الاقباش[۔ والعقب من ولدعون ]عرف قطب غازی [بن علی]عبدالمنان[ بن محمد ابن الحنفیہ فی محمدصاحب القبربالبقع وحدہ ومنہ فی علی بن محمداشھل البقعن ومنہ فی علی بن علی وموسی بن علی والحسن بن علی قال ابن ابی جعفر لہ بقہح بالھند،فاماعلی بن علی بن محمداشھل البقع فولدہ عیسی بن علی بن علی بن محمداشھل البقعر لہ عقب بمصر،ابوتراب القتیل الاحول لہ بمصر ولد،وابوتراب ھذاھو الحسن بن محمدبن عیسی بن علی بن علی بن محمداشھل البقعم واخوہ القاسم ابو زبۃبن بن محمد بن عیسی بن علی بن علی لہ ولد بمصر،والحسن، بن عیسی بن علی بن علی التوم فولدہ محمد بن الحسنم ومنہ فی الحسنا بن محمد لہ عقب واما محمد بن علی بن علی بن محمداشھل البقعل فولدہ محمدبن محمد وحدہ و منہ فی ابی علی الحسنی بن محمد بن محمد قتلتہ الروم ولہ اولاد، واما موسی بن علی بن محمداشھل البقعح فلہ من حمزۃ بن موسی والحسنب بن موسی ھما عقب واولاد بمصر واخوہ فی صح"
"تہذیب الانساب ونہایتہ الاعقاب" عربی 449ہجری مں تالف ہوئی۔اس مں علی بن علی،موسیٰ بن علی والحسن بن علی کے علاوہ باقی عیسیٰ بن علی،احمد(غازی) بن علی، محمد(غازی) بن علی والحسن بن علی کی اولاد ہندوستان مں آبادہونادرج ہے۔تہذیب الانساب کے علاوہ منتقلۃ الطالبیہ عربی 471ھ، المعقبون جلدسوم اور منبع الانساب فارسی830ھ سے بھی ہوتی ہے اور شجرہ نسب بھی درج ہے۔منبع الانساب مںئ درج احمدبن علی کواحمدغازی اورمحمدبن علی کو محمدغازی درج کرتے ہوئے محمدغازی کی اولادسے سالارمسعودغازی کو سلطان محمودغزنوی درج کایہے۔ اور سلطان محمودغزنوی کی وفات421ھجری مںس ہوئی اور سالارمسعودغازی(قطب شاہی علوی اعوان) کی شہادت424ھجری مںم ہوئی۔
منتقلۃالطالبیہ عربی(471ہجری)
"منتقلۃالطالبیہ" عربی از ابی اسماعلئ ابراہمل بن ناصرابن طباطبا471ہجری مںہ شائع ہوئی۔کتاب ہذامںت عون بن علی بن حضرت محمدحنفہؒ کی اولاد کا تذکرہ پانچ مختلف مقامات پر یوں تحریرہے:۔
(بطبرستان)ابوالحسنی یحیٰی بن الحسن بن محمدالصوفی ابن یحییٰ الصوفی بن عبداللہ بن محمد بن عمرالاطرف، امہ حمدونہ بنت الحسن بن علی بن محمد بن عون بن علی بن محمد بن الحنفیہ ؒ۔
صفحہ295پر عون قطب شاہ کی بیرغ رقہ بنت عون بن علی بن محمدحنفہؒ کا ذکرمصرمں یوں درج ہے:۔
(بمصر) "مات فی الحبس علی بن عبداللہ بن داود امہ رقہ بنت عون ابن علی بن محمد بن علی بن ابی طالب ”
صفحہ 303پرعون کے سات پڑپوتوں کا شجرہ نسب یوں درج ہے:۔
(بمصر) علی بن اشہل البقعر ابن عون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب (ع) عقبہ علی بن علی اعقب، وموسی اعقب والحسن اعقب وسواہم فی المشجر ۃ عیسی و احمدومحمدو الحسنق۔
ص 331(نصیبین نواح کوفہ) مں عون قطب شاہ غازی کی اولاد سے رقہ( بنت ابی تراب محمدالعسل بن علی بن علی بن محمدالعسل بن عون قطب شاہ غازی بن علی بن محمدحنفہل ؒ یوں درج ہے۔
(بنصیبین)" الحسن بن محمدبن الحسن بن اسحاق الموتمن عقبہ ابوالحسن محمدوابوالقاسم احمدویعرفا بابنا المحمدیہ فان امہما رقہ بنت ابی تراب محمد العسل(ا) ابن علی بن علی بن محمد العسل البقعن بن عون بن علی بن محمدبن حنفہؒا"۔ (محمدآصف غازی بن عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمدحنفیہؒ)
منتقلۃ الطالبیہ“ کے ص 352پرعون قطب شاہ غازی (جدامجدقطب شاہی علوی اعوان) کا ہندآنا یوں درج ہے:۔
"ذکرمن وردالھند من ولد محمدبن الحنفیہ، منہم ولدعلی بن محمدبن الحنفیہؒ(بالھند) من ولدالحسنع بن علی بن محمداشہل البقعا ابن عون بن علی"۔
"منتقلۃالطالبیہ"(عربی) تالفی از ابی اسماعل ابراہمل بن ناصرابن طباطبا ہے اس کتاب مںع حضرت ابی طالب بن عبدالمطلب کی اولاد دنای بھرمںن جہاں جہاں منتقل ہوئی درج ہے کتاب ہذاکے صفحہ 352 کے مطابق علی بن محمدالاکبر(حضرت محمدحنفہب) بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولادکا ہندمںا آبادہونادرج ہے۔نزرعون بن علی جوعون قطب غازی کے نام سے بھی شہرت رکھتے تھے کی اولاد مصرمںب آبادہونا،نصیبین نواح کوفہ مںل رقہا بنت ابی تراب محمدالعسل اورطبرستان مںن عون قطب غازی کی اولادسے حمدونہ بنت الحسن کی اولادبادن کی گئی۔اس طرح "منتقلۃ الطالبیہ" مںج تنل مختلف مقامات پرعون بن علی جوعون قطب غازی بھی مشہورہںق کی اولاد درج کی گئی ہے۔ ص303پر عون قطب غازی کے سات پڑپوتوں ۱۔علی بن علی،۲۔موسیٰ بن علی،۳۔حسن بن علی،۴۔عیسیٰ بن علی،۵۔حسند بن علی،۶۔احمد بن علی،۷۔محمدبن علی۔ بن محمدبن علی بن محمداشھل/العسل المعروف محمدآصف غازی بن عون عرف قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن محمدؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے سالارمسعودغاز ی قطب شاہی اعوا جو سلطان محمودغزنوی کے بھانجے ہیں کا شجرہ نسب بھی منبع الانساب فارسی میں تحریرہے۔منتقلۃ الطالبیہ مںے حضرت ابی طالب کی وہ اولاد درج ہے جہنوں نے اپناآبائی وطن اور گھربارچھوڑکر ہندومصرکے علاوہ دنامبھرکے مختلف علاقوں کی جا نب ہجرت کی ان مںئ محمدغازی، احمدغازی،موسیٰ، حسن، حسین پسران علی بن محمداشھل(آصف)بن عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن محمدحنفہؒم بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی
اولاد ہندمیں آباد ہونا انساب کی قدیم کتب سے ثابت ہے۔
(بحوالہ: تہذیب الانساب عربی، منتقلۃ الطالبیہ عربی، المعقبون عربی،المشجرالوافی عربی ومنبع الانساب فارسی)
کتاب المنتخب فی نسب قریش وخالرالعرب(656ہجری)
کتاب”المنتخب فی نسب قریش وخا رالعرب“(656ھجری)تالفی از الشخ الامام الحافظ ابی عبداللہ بن عیسیٰ بن عبد اللہ المرادی المالکی کے صفحہ 26پردرج ہے:۔
"وولدعون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب:محمدا ورقہر و علہب بنی عون"۔ "بنی عون" یعنی اعوان جس طرح بنی ہاشم سے ہاشمی ،بنی اسرائیل سےاسرائیلی مشہورہے اسی طرح بنی عون سے اعوان نے شہرت اختیار کی عون کی جمع "اعوان" ہے۔
دوسری صدی ہجری کی کتاب”نسب قریش“عربی مںع حضرت محمدحنفہؒل کے پوتے عون کی اولاد"بنی عون"درج ہے اور ساتویں صدی ہجری کی کتاب"المنتخب فی نسب قریش و خاکرالعرب" مںو بھی عون بن علی بن حضرت محمدحنفہک بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد "بنی عون" درج ہے۔ جیسا کہ اوپر تحریر ہے کہ عون کی جمع اعوان ہے یینب برصغرشپاک و ہند مںم ”بنی عون“ سے اعوان نے شہرت پائی۔ Aaaaaaa
لباب الانساب والالقاب والاعقاب عربی(565ہجری)
"لباب الانساب والالقاب والاعقاب" تالف5 از ابی الحسن بن ابی القاسم بن زید البہقی المتوفی565ہجری کے ص 727پردرج ہے:۔ فصل فی ذکرالسادات والاشراف الذین یاخذون الارزاق وریوع (فی جمعب النسخ:کانوا)الاوقاف من دیوان غزنہ ونواحیھاء باھتمام نقبا النقباء ابی محمدالحسن بن محمدالحسیت ۔اولاد محمدبن الحنفیہ: علی بن الحسن ، وابناء الحسنع بن علی، والقاسم بن علی،ومنصوربن علی وحمزہ بن علی وعبدالملک بن علی و سکنہا بنت علی و رسیۃ بنت علی"۔
"لباب الانساب "مںی الحسن ،القاسم، منصور،حمزہ،عبدالملک ابنان علی بن حسن بن علی بن محمدآصف غازی(محمداشھل/ا لعسل) بن عون بن علی بن محمدالاکبراالمعروف محمدحنفہم ؓ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاغزنی ونواح مںس سلطنت غزنویہ سے منسلک ہونادرج ہے۔جس سے صدیوں پرانی روایات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قطب شاہی علوی اعوان قبلہ سلطنت غزنویہ کے ساتھ منسلک رہاہے۔
عمدۃ الطالب فی نسب ال ابی طالب828ہجری
”"عمدۃ الطالب فی نسب ال ابی طالب" (عربی) الشریف جمال الدین احمد بن علی بن الحسنم بن علی مھنا عنبہ بن علی بن محمد بن یحییٰ بن محمد بن یحییٰ بن محمدالاکبربن داؤد بن موسیٰ الثانی بن عبداللہ الرضا بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المعض بن حسن المثٰنی بن امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 848ھجری مںس تالفا کی جس کے ص 145تا147محمدالاکبرالمعروف محمدحنفہؒ کی اولاد درج کی ہے اس مںت محمدبن حنفہی ؒ کی اولادکاعجم یینم ہندمںی آنااورعلی بن محمدحنفہؒں کی اولاد کا اقتباس بذیل ہے:۔”فولدابوالقاسم محمدبن الحنفیہ اربعۃ و عشرین ولدامنھم اربعۃ عشرذکراًقال الشخق تاج الدین محمدبن معیۃ:بنو محمدابن الحنفیہ قلیلون جدالسذ بالعراق و لابالحجاز منھم احدوبقیھم ان کانت فی مصروبلادالعجم،والکوفۃمنھم بتھ واحدھذاکلامۃ فالعقب المتصل الان من محمد من رجلنب علی و جعفرقتل یوم الحرۃ“۔۔ ”واماعلی بن محمد بن الحنفیہ وھوالکبرفمن ولدہ ابو محمد الحسن ابن علی المذکور کان عالما فاضلا ادعنہ الکیسانہر اماماًواوصی الی ابنہ علی فاتخذتہ الکیسانہو اما ما بعد ایبہ ومنھم ابو الحسن تراب محمد ابن المصری الملقب ثلثاوخردیۃ ابن عیسٰی بن علی بن محمد بن علی بن علی المذکور قتل بمصر ولہ عقب منتشر بقال لھم بنو ابی تراب ھذا کلہ کلام الشخت ابی الحسن العمری۔وقال الشخت ابو نصر البخاری: کل المحمدیہ من ولد جعفربن محمدوقال فی موضع آخر: اعقب علی وابراہما وعلی وعون اولاد محمدبن علی ثم انقرض نسلھم ولایصح ان یریدبعلی ھذا الاصغر فانہ دارج وھذامعقب منقرض واللہ سبحانہ ا علم“۔
مولف”عمدۃالطالب“نے ابونصربخاری مولف”سرالسلسلۃ العلویہ“ کی روایت کوقلم بندکرتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ وہ علی اصغرتھے جب کہ علی بن محمدحنفہر بن حضرت علی ؓ کی اولاد عجم و مصر مںو موجودہے جن کے شجرات بھی انہوں نے درج کےن ہںا جوملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
بحرالانساب عربی(900ہجری)
"بحرالانساب"عربی تالفی از السیّدمحمدبن احمدبن حمدوالدین الحسیات نجفی(900ہجری) المدینہ منورہ سعودیہ سے شائع کی گئی کے ص 245پرعون قطب شاہ غازی کے پڑپوتوں علی بن علی، موسیٰ بن علی،الحسن بن علی، عیسٰی بن علی، محمدبن علی،احمدبن علی والحسنع بن علی بن محمدبن عون بن علی بن محمدالحنفیہ درج ہںو۔
"بحرالانساب" عربی مںق عون بن علی بن محمدحنفہا بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پڑپوتے علی بن علی، موسیٰ بن علی،الحسن بن علی، عیسٰی بن علی، محمد(غازی)بن علی،احمد(غازی)بن علی والحسنہ بن علی درج ہںے۔تہذیب الانساب، المعقبون اور منتقلۃ الطالبیہ کے مطابق مںع علی بن علی وموسی بن علی کے علاوہ باقی ہندمںں آبادہونابا ن کےہ گئے ہں ۔منتقلۃ الطالبیہ کے ص 352حسن بن علی کی اولادبھی ہندمںن ہے۔منبع الانساب کے مطابق شاہ محمدغازی و شاہ احمد غازی بن علی کی اولاد بھی ہندمںن آبادہے۔اس طرح الحسن بن علی، عیسٰی بن علی، محمد(غازی)بن علی،احمد(غازی)بن علی والحسنز بن علی کی اولادہندمںر آبادہے۔
الشجرۃ الذکہ عربی1433ھ
"الشجرۃ الذکیۃفی انساب بنی ھاشم" تالف از السد یوسف بن عبداللہ نے 2012ء مں التوبہ مکتبہ جل المعرفۃ الریاض۔السلیمانیۃ شارع الامرل سلطان بن عبدالعزیز نے شائع کی کے صفحہ 599پر درج ہے "حمزہ ابو ییلا بن القاسم بن علی بن حمزہ الاکبر بن الحسن بن عبد اللہ بن العباس بن علی رضی اللہ عنہ"۔ صفحہ 600پردرج ہے:۔"قطب شاہ القادری البغدادی والذی کان صوفی المذھب بن عون بن ییلع کان من دخل الھند مع الفتح العربی الاسلامی ویذکرانہ کان فی جش الفاتح محمودبن سبکتگین الغزنوی"۔
الشجرۃ الذکہا کے مولف نے مندرجہ بالا مندرجات کے تن حوالے دیئے ہں 1۔حققتن الاعوان فی حبب الرحمن،2۔وییف پڈحیا،3۔عادل بن اسماعلب الظہران کے خط کے حوالے سے جو پاکستانی ہںت اور مزمل علی کلغان کی اولاد سے ہںق۔ اول تو حققتا الاعوان فی آل حببن الرحمن،باباہاشم سلمل پورملکے سابلکوٹ نے1390ھ مں شائع کی کے صفحہ 94پرلکھتے ہںک کہ مر ی تحققل مں شجرہ نسب یوں ہے:۔امرا قطب الدین معروف بہ قطب شاہ، بن عقلد، بن حسن9، بن محمد،بن علی، بن ابوعلی اسحق، ابن عبداللہ راس المذری، بن جعفر الثانی، بن عبداللہ، بن جعفر الاصغر، بن محمد الاکبرؓ بن علیؓ۔دوسراحوالہ ویی پڈایاکادیاگاہ ہے جبکہ”اعوان۔آزاددائرۃ المعارف وییر پڈ یا“یینن اردو مںد ”اعوان“ ہے۔ قدیم انساب کی عربی و فارسی کتب کے حوالہ سے بنی عون اور قطب شاہی علوی اعوان کا شجرہ نسب حضرت محمدحنفہؒا بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک درج ہے۔تسرلا یہ کہ عادل بن اسماعلل جو کہ پاکستانی ہںم اور الظہران سے مکتبہ کوعربی مںہ خط لکھا ہے جو کہ کتاب ہذاکے صفحہ600پر موجود ہے جس مںن موصوف لکھتے ہںغ کہ وہ قطب شاہ القادری البغدادی جو کہ صوفی مبلغ تھے کی اولاد سے ہںؒ اور سلطان محمودغزنوی کے لشکر کے ساتھ ہند مںل آئے ہںب اور مزمل علی کلغان بن قطب شاہ کی اولاد سے شجرہ بھی لکھا ہے۔
مندرجہ بالا مندرجات کا خلاصہ یہ ہے کہ حققت الاعوان کے مطابق اعوان حضرت محمدحنفہ ؓ بن حضرت علی کی اولاد سے ہں ۔اور عادل بن اسماعلو نے شجرہ نسب حضرت غازی عباس علمدار سے اور قطب شاہ قادری مبلغ ظاہرکاو اور یہ بھی لکھ دیا کہ وہ سلطان محمودغزنوی کے لشکر کے ساتھ ہند آئے ہںر۔ سلطان محمودغزنوی کادورچوتھی صدی ہجری کا آخری عشرہ ہے جب کہ غوث پاک کا دور پانچویں صدی ھ کا آخری عشرہ یین 100سال کا فرق ہے ایک طرف جہاد اور دوسری طرف تبلغہ بھی لکھ دی۔ سلطان محمودغزنوی کے ساتھ حضرت محمدحنفہؒ کی اولاد آئی ہے حضرت غازی عباس علم دار کی اولاد نہ تو سلطان محمودغزنوی کے ہمراہ ہند آئی ہے اور نہ ہی کسی نے دعویٰ کیاہے۔ الشجرۃ الذکہو کے مولف نے درست تجزیہ نہں کال صرف خط پر اکتفاکرتے ہوئے غلط طور پر شجرہ نسب درج کردیا جب کہ مولف کو چاہےے تھا کہ جہاں شجرہ جوڑرہے ہںو کاف انساب کی کسی عربی اور فارسی کتاب مںط اس کا کوئی حوالہ موجود ہے۔اگرموصوف دوسری صدی ہجری کی کتاب نسب قریش عربی،منتقلۃ الطالبیہ عربی 471ھ، تہذیب الانساب عربی449ھ، منبع الانساب فارسی 830ھ کا مطالعہ کر لتےے تو انہں اصل حققتش کا علم ہو جاتاکہ قطب شاہی علوی اعوان عون بن علی بن محمدحنفہؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولادسے ہے۔ جو گروہ اعوان قبلہھ کا شجرہ نسب حضرت غازی عباس علمدار کی اولاد سے ملاتا ہے وہ بھی بغرسکسی ثبوت کے عبداللہ گولڑہ اور محمدشاہ کندلان کاشجرہ نسب جوڑتاہے اور مزمل علی کلغان و دیگر آٹھ کا حضرت محمدحنفہؒے بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے ہونادرج کرتے ہںہ (بحوالہ :تاریخ الاعوان،معارف الاعوان اور مشاہرا سون)ان کے اس موقف کو جناب امجدحسنل علوی صدر (وقت)حال چئرامن تنظم( الاعوان پاکستان کی زیرصدارت رائٹرازکانفرنس اسلام آباد منعقدہ 12اپریل 2014ء کے اجلاس میں مستردکااجاچکاہے روئدیادتبصرہ "سوانح حامت قطب حدورشاہ ؒ" مںر ملاحظہ فرمائںن۔ درست بات یہ ہے کہ برصغر پاک و ہند مںج آباد قطب شاہی علوی اعوان”عون“بن علی بن حضرت محمدحنفہؓ، بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے ہںم اور ییل انساب کی قدیم کتب سے ثابت ہے۔
المشجر الوافی الجز الحادی عشرعربی2011ء
المشجرالوافی“الجز الحادی عشرعربی تالف ازالسّیدحسنک ابو سعدا الموسوی2011ء جس کے صفحہ 14پرعون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمدحہؒ بن حضرت علی ؓ کرم اللہ وجہہ کی اولاد یوں درج ہے:۔اعقاب عون بن علی بن محمدالحنفیہ:محمدالملقب بہ (اشھل البقعط) عقب علی((عقبہ فی مصرو الہند))((کان بالبصرۃ))۔شجرہ نسب جدول کے مطابق یوں ہے۔علی۔موسیٰ((لہ بقیۃ بالھند)) الحسن۔عیسیٰ۔احمد۔محمد۔الحسن ۔(سات بھائی)۔دو مصر باقی پانچ ھند مںو۔ علی بن علی بن محمداشھل بن عون بن علی بن محمدحنفہس بن حضرت علیؓ کی اولاد مصرمںؒ آبادہونادرج ہے۔علی بن علی عیسیٰ و ابوتراب محمدتھے۔عیسیٰ (لہ عقب بمصر): ابوتراب الحسن۔ابوبیۃ القاسم((لہ بمصرعقب))۔الحسنی التوم۔الحسن التوم کے فرزند محمداور محمدکے فرزند الحسنج((لہ عقب))۔موسیٰ بن علی بن محمدالملقب اشھل البقع بن عون بن علی بن محمدحنفہؒی کے دو فرزند حمزۃ(لہ عقب اخوۃ والاولاد بمصر))۔الحسند((لہ اخوۃ و اولاد بمصر))۔ اسماعلی ابن الحسن ابن علی ابن احمدا بن الحسن ا بن محمدا بن عیسیٰ ا بن علی((عقبہ فی مصروالھند))((کان بالبصرہ))ا بن محمدالملقب بہ (اشھل البقع )ا بن عون ابن علی ا بن محمسدالحنفیہ۔صفحہ ۶۱عقب ابوعبداللہ جعفرالاصغر ابن محمدحنفہؒی: عبداللہ راس المذری۔علی((ولدہ بالمصورۃ و مکران))۔القاسم۔محمد۔احمد۔اسحاق ا بن جعفر الثانی ا بن ابوجعفر عبداللہ ابن ابوعبداللہ جعفرالاصغرابن محمدالحنفیہؒ "المشجرالوافی"کے مولف نے قدیم عربی انساب کی کتب کے حوالے سے عون بن علی بن محمدحنفہؒر کی اولادجو کہ "نسب قریش" عربی و "المنتخب فی نسب قریش و خایرالعرب"کے مطابق "بنی عون" مصر اور ہند مں آبادہونادرج ہںح۔عو ن بن علی بن محمدحنفہا اور علی بن محمدحنفہا ؒ کی جواولاد مصرمںخ آبادہے ان کا شجرہ نسب بھی اسماعلب ابن الحسن ابن علی ابن احمدا بن الحسن ا بن محمدا بن عیسیٰ ا بن علی((عقبہ فی مصروالھند))((کان بالبصرہ))ا بن محمدالملقب بہ (اشھل البقعب)ا بن عون ابن علی ا بن محمدالحنفیہؒ تک درج ہے۔
تاریخ محمودی فارسی(997ء تا1033ء)
"تاریخ محمودی" (فارسی)، حضرت ملامحمدغزنوی رحمۃ اللہ علہق کی تالفہ ہے جو سلطان محمودغزنوی کے دورحکومت اور ان کی وفات کے تن سال بعد تک زندہ رہے(387ھ تا424ھ)۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ حضرت سد مولائی حسن رحمتہ اللہ علہل نے 895ہجری مںح کار۔اردوترجمہ کی اشاعت غازی اکڈےمی، ذاکرحسنا نگر، گوونڈی مبئی سے1000کی تعدادمںس شائع کی گئی ۔کتاب ملنے کا پتہ سدک اسرار احمدعلوی، ذاکرحسن نگر، گوونڈی ممبئی و سد علی رضا ہاشمی، ملاڈ، مالونی، ممبئی ہے۔کتاب ہذاکے صفحہ3تا5پر عرض حال کے عنوان مں علی رضا یوں رقم طراز ہں :۔”گلشن اسلام مںی جن اولاکئے کرام نے اپنے لافانی کارناموں کی بدولت بقائے دوام حاصل کام ہے۔ان مںہ حضور اعظم سلطان ایا ح غازی دوراں امام اولا ء پرلپہلم سلطان الشہداء سدک سالارمسعودغازی رحمۃ اللہ علہا کا اسم گرامی مثل آفتاب روشن و درخشاں ہے۔ "تاریخ محمودی"کا نام پچھلی چار دہائورں سے سن رہا ہوں جس کے مولف حضرت ملّا محمدغزنوی رحمۃ اللہ علہی ہںر۔جو حضرت سلطان محمودغزنوی رحمۃاللہ علہخ کے معتمد خاص تھے آخری عمر مںر حضرت سدہسالار ساہو غازی اور سدا سالارمسعودغازیؒ کے ساتھ گزاری اور حضرت سدی سالار مسعودغازی علہم الرحمہ کی شہادت کے بعد وفات پائی۔ پشر نظر کتاب تاریخ محمودی کئی جلدوں مںز اور کافی ضخمد ہے جس مں بالخصوص حضرت سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علہت کے حالات و حارت و کارنامے جنگی محاربات عائلی مہمات دولت غزنویہ کے ارکان اور ان کے آپس کے اختلافات و اسلامی خدمات بالتفصلو مندرج ہںو۔ حضرت غوث الاغواث قطب الاقطاب تاج العارفنو زہدۃ الکاملنو گل گلزار مسعودیت حضرت سدف مرل مولائی حسن علہر الرحمہ نے تاریخ محمودی سے جستہ جستہ چن کر حضرت سدط سالار مسعودغازی رحمۃ اللہ علہی کے حالات و محاربات کا ترجمہ کرکے ایک مختصر گل دستہ ۵۹۸ھ مںس تاھر کاوجس کی زیارت کا شرف ۵۲شوال المکرم ۳۳۴۱ھ کو عروس البلاد ممبئی مںس ہوا۔برادر طریقت سد اسرار احمدعلوی المسعودی کو کتابوں کی دید و دریافت کا اچھا ذوق ہے۔انہوں نے بڑی ہی جدوجہد،جستجو اور کاوش سے اس کتاب کو حاصل کا۔ ہے۔ اس قلمی نسخے کا مطالعہ شروع کام چونکہ یہ قلیر نسخہ تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔قدامت کی وجہ سے جابجا کرم خوردہ ہو چکا ہے اس لئے ان مقامات کے اکثر حروف و الفاظ صاف نہں ہںہ۔پانچ سو سال کی قدیم اردوجس کا پڑھناادھورے الفاظ کا سمجھنا اور سا ق و سباق کے تناظر مں مٹے ہوئے حروف و الفاظ کا تعنں کرنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ مخطوطہ خواں حضرات ہی کرسکتے ہںر۔مقفع و مسجع مبہم غرا واضح مقامات کو بڑے ہی غوروفکر تفحص و تحققا کے ساتھ مرکز کتابت تک پہنچایا۔مخطوطہ کی قرات متن کی تصححب پروف ریڈنگ کے تمام مرحلوں مںخ جان پدر نورچشمی علامہ و مولانا مولوی مفتی حافظ و قاری حکمم سدّومحمدنصر الحسن نوری مالں علوی المسعودی نے بڑی ہی محنت و کاوش کے ساتھ کی ہے۔طباعت جو کہ بے حد مشکل کا م ہے اس کے لئے کافی فکر دامن گرن ہوئی مگر: ۔"خلوص ہو تو نکلتی ہںً غبو سے راہںہ"۔بالآخر ایک روز ہماری ملاقات اس مرد خدا سے ہوگئی جس کے دل مںک سرکار غازی ما ں کا عشق ہے یینک مخرّرقوم و ملت سدّاریاض احمدعلوی سونہن ضلع سنت کبرک نگر سے ہم نے بغرم کسی توقف کے اپنا مدعا ئے دل موصوف کے سامنے باان کردیا انہوں نے ہماری بات سننے کے بعد برجستہ کہا کہ اس کتاب کی طباعت مںر جواخراجات ہوں گے وہ مںخ دوں گا۔یہ سن کر مجھے اتنی خوشی حاصل ہوئی کہ مںن بارن نہں کرسکتا گئے دن کہ تنہا تھا مںک انجمن مںط یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہںے دل کی گہرائوبں سے دعاء گوہوں کہ مولاتعالیٰ مولف و ناشر و طابع کو سرکار سدّکسالار مسعودغازی رحمۃ اللہ علہں کے صدقہ وطفلا مںب جزائے خرں اور دارین کی سعادتوں سے سرفراز فرمائے۔آمنئ۔ علی رضاصفحہ 19پرظہورنورولایت سالارمسعودغازی کے احوال مںں یوں تحریر ہے”اکسوجیں رجب 405ھ مںن یکشنبہ صبح صادق کو عالم منور فرمایا حسن یوسفی نمک ابراہیشن نورمحمدی جبںا انور سے عااں تھا چہرہ منورسے آفتاب ولایت تاباں تھا“۔صفحہ02پر سلسلہ نسب کے عنوان سے یوں رقم طراز ہںن:۔"حضرت سدو سالارمسعود غازی رحمۃ اللہ علہی ابن حضرت سدا سالارساہو غازی رحمۃ اللہ علہ ابن حضرت سدا عطااللہ غازی رحمۃ اللہ علہس ابن حضرت سدن طاہر غازی رحمۃ اللہ علہی ابن حضرت سدع طبے غازی رحمۃ اللہ علہ ابن حضرت سدح محمدغازی رحمۃ اللہ علہد ابن حضرت سدق محمدغازی رحمۃ اللہ علہد ابن حضرت سدا عمر]علی[غازی رحمۃ اللہ علہی ابن حضرت سدہ آصف غازی رحمۃ اللہ علہح]اسھل/اشھل[ابن حضرت سد بطال غازی رحمۃ اللہ علہم]عون قطب شاہ غازی لقب بطل غازی[ ابن حضرت سدا عبدالمنان غازی رحمۃ اللہ علہر]علی عبدالمنان[ابن حضرت سد امام محمدحنفہا غازی رحمۃ اللہ علہ ابن حضرت سدن السادات علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم"۔
صفحہ 56پریوں تحریر ہے:۔”سد سالار ساہو غازی شبا شب کوچ کر کے جب قریب آئے فوج کے غول بنائے ایک نے کڑے سے کڑا پکڑکر حلقہ کا دوسرے نے مانک پورکو گھرر لار فوراً ہر دو مقام پر جا پڑے خوب لڑے دونوں گرفتار ہوئے۔ذللھ و خوار ہوئے جھڑی ڈال کرکڑے مانک پور سے نکال کر سترکھ چالان کان کڑے مانک پور کو ویران کا خزانہ بے شمار پایا ہر لشکری لونڈی و غلام باندھ لایا یہاں سپہ سالار مسعودغازی نے قدضیوں کو بہرائچ بھجب دیا۔سدک سالار سفک الدین کے سپرد کا ۔پھرپہلوان لشکر نے ملک عبداللہ کو کڑے کا حاکم کاد اور ملک قطب حد رکو مانک پوردیا خود سترکھ مںن آئے سجدہ شکر بجالائے۔اس مقابلے معرکے مںد مخالفوں کا حوصلہ ٹوٹ گا جی چھوٹ گاو“۔ سلطان الشہداء کی شہادت کے حوالے سے صفحہ 72پر درج ہے:۔”اٹھارہ سال گاارہ مہنےو چوبس روز دناو کی ہواکھائی۔انست ویں سال اول وقت عصر روز یکشنبہ چودہویں رجب424ھکو بہرائچ مںض جہاد کرکے شہادت پائی۔روح پاک کا مبدہ خاص سے وصال ہوا“۔ اظہار تشکر کے طور پر کتاب ہذاکے آخر مںا سے مختصراقتباس پشا خدمت ہے:۔”اقلم ہند کی عظمل جانباز شخصت کے حالات و کمالات پر تقریباً ایک ہزار سال قبل حضرت ملا محمدغزنوی کی مشہورزمانہ کتاب ”تاریخ محمودی“ عظمت شاہکارتحقی پ کتاب ”مسعودستان“ و ”قبلہم ہاشمی“کی طباعت و اشاعت کے لئے عالی جناب سدّک برکت علی سٹھا و عالی جناب الحاج سدّ ریاض احمدصاحب کا بھرپور تعاون حاصل ہوا۔دل کی گہرائولں سے شکرگزارہوں جنہوں نے اپنا بشک قیتع زرتعاون ہر سہ کتابوں کی طباعت کے لئے پشٹ کام جس کی بدولت تدوین و اشاعت کے دشوار گزارمراحل با آسانی طے ہوئے۔مولائے کریم جملہ معاونن کو حضور سلطان ایای ء غازی پاک کے صدقے و طفلا مںت ان تمام افرادخانہ نز احباب کو ایمان و عقدمہ کی سلامتی اور صحت و عافتی دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔اور ان کے مرحومنخ کے لئے ذریعہ نجات بنے۔آمنم (سدّااسراراحمدعلوی المسعودی، چئرہمنی ورلڈ اسلامک اسپرچول آرگنائزیشن،ذاکر حسنل نگر، گونڈی، بمبئی۔)
Aaaaa
"تاریخ محمودی"جو سلطان محمودغزنوی کے دور مںم لکھی گئی جس کا ذکر تاریخ بہقی کے مولف نے کتاب ہذاکے صفحہ13پر بھی کام ہے،کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی راقم گزشتہ کئی سالوں سے اس کی تلاش مںذ تھا راقم نے انڈیا سے ”مرات مسعودی“کے تن مخطوطے نورمائکرکوفلم نئی دلی سے 2015ء مںی منگوائے تھے اس وقت بھی تاریخ محمودی کی معلومات کی گئی تھی مگر اس وقت نہ مل سکی تھی تلاش جاری تھی آخر محترم سدّ اسرار احمدعلوی جو کہ سدینصراللہ غازی بن عطااللہ غازی از اولاد حضرت محمدحنفہؒا بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہںو سے رابطہ ہوا اور انہوں نے تاریخ محمودی کا اردو ترجمہ اور دیگر کئی قیت نسخہ جات،مخطوطے اور قدیم شجرات بھی ارسال فرمائے ہں اللہ تعالیٰ انہں اجرعظمن عطافرمائے۔آمنا۔
اریخ محمودی“ کے قدیم اردو ترجمہ کی دستا بی کے بعد ان تمام روایات کی مزید تصدیق ہوچکی جو"منبع الانساب"(فارسی830ہجری)،"مرات مسعودی" (فارسی1037ہجری) و"مرات الاسرار" فارسی (1045ہجری) و غرسہ مں سالار مسعودغازی قطب شاہی علوی اعوان کے حوالے سے بامن کی ہںا۔وہ یہ کہ سدم سالارمسعودغازی سلطان محمودغزنوی کے بھانجے تھے یہ کہ ان کے خاندان یینر قطب شاہی علوی اعوان قبلہع نے سلطان محمود غزنوی ؒ کے ساتھ جہاد ہند مںا عظما کارہائے نمایاں انجام دیئے۔یہ کہ اس قبلہد کا شجرہ نسب حضرت محمدحنفہؒن بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتاہے۔ اس کے علاوہ بھی سنکڑ وں کتب مںک حوالہ جات موجود ہں ۔ لکنا تاریخ محمودی کی دستاکبی سے قطب شاہی علوی اعوان قبلہا کے شجرہ نسب پر ایک اور تصدیی مہرثبت ہوچکی ہے جس کے مطابق قطب شاہی علوی اعوان قبلہن کا شجرہ نسب یوں ہے:۔”سدبامرینصراللہ غازی، سدعساہوسالارغازی، سالار قطب حدیرشاہ غازی علوی المعروف قطب شاہ، سد سفڑ الدین (سرخروسالار) و سد: عبداللہ المعروف ملک حدبر پسران عطااللہ غازی بن طاہر غازی بن طبل غازی بن شاہ محمدغازی بن شاہ علی غازی بن محمدآصف غازی بن عون عرف قطب غازی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمدحنفہؒہ بن حضرت کرم اللہ وجہہ“۔
تاریخ بہقی(385ہجری۔470ہجری)
تاریخ بہقی" خواجہ ابوالفضل محمدبن حسنج بہیقی(385ہجری۔470ہجری)نے تالف کی جس مںد سلطان مسعودبن سلطان محمودغزنوی کے حالات درج ہںز۔تاریخ بہقی جلداوّل ص 57پرعلویان وغازیاں کے حوالہ سے درج ہے "این قوم مستحق ھم نکویئھاھستندبگوی تاقاضی ورئسد وخطبا ونقبں علویان وسالارعلویان وسالارغازیان راخلعتھاراست کندھم اکنوں از رئسغ ونقب علویان وقاضی زروازآن دیگرزرآندود۔وبوضشانندو پشی آرتا سخن ما بشنوند، و پس بامرتبہ داران از آن سوی شھر گسیل کن شان ھر چہ نکوتر"۔ aaaaaaa
اردو ترجمہ: اس قوم کی بات کاد کرتے ہں مگرایک بات ہے اس قوم مںم مجھ سمتل قاضی القضاء رئسن، خطبق نقبی، سب کے سب علوی ہںف۔ سالاربھی علوی ہں ان کوانعام و اکرام ملناچاہے یہ بہت ضروری ہے۔کسی کو اپنے ساتھ ملانا ہو تو انعام و اکرام بہتفائدہ دیتے ہںب ان کے علاوہ جو رائسا و نقبب و قاضی علوی ہں اب ان کے بارے مںی کان بات کرنا یہ نکب ہںل یا بدہںا ہمدرد ہں یا دشمن دیکھنا پڑے گا۔
صفحہ352پر درج ہے:۔بزرگ از اشراف علویان و قضات و علماء و فقھابااستقبال رواز پشتر وعانن درگاہ“ محمودکے زمانے مں غزنی مں سے بہت بڑی تعداد مں3 علوی شرفا،علماو فقھا آگئے تھے۔جلددوم صفحہ 936پر امرامحمودالمعروف سالارساہوغازی کے حوالے سے یوں تحریر ہے:۔"من نقب خیلتاشان۴امر محمودبودم و بہ ری ماند مرا با این باخداوندوآنجا حاجبی بزرگ یافتم و بساںرنعمت و جاہ ارزانی داشت و امروز درجہ سالارانم چرا باز گرزم چننا نصحیت؟" تاریخ بہقی"کے مولف خواجہ ابوالفضل نے سلطان محمودغزنوی اور اس کے بٹے مسعود غزنوی کے دورمں تالف فرمائی جس کے مطابق قاضی القضاء رئس ، خطب نقب وسالار سب کے سب علوی ہں ۔تاریخ بہقی کے مندرجات سے یہ بات تصدیق ہوچکی ہے کہ سلطان محمودغزنوی اور مسعودغزنوی کے ساتھ علوی بنی عون اور قطب شاہی اعوان موجودتھے جس کا تذکرہ لباب الانساب نے بھی کاع ہے جوحضرات محض مفروضوں کی بنا د پر کہہ رہے ہں کہ علوی سلطان محمودغزنوی کے ساتھ نہںو ہوسکتے کو ں کہ اس نے ملتان کے علویوں کا قتل عام کا ۔مندرجہ بالا عبارت سے اور لباب الانساب اور منبع الانساب سے علویوں کا سلطنت غزنویہ کے ساتھ ہونے کی تصدیق ہوچکی۔
مہاجران آل ابی طالب(فارسی)471ہجری
"مہاجران آل ابی طالب"(فارسی)، منتقلۃ الطالبیہ عربی تالفی از ابو اسماعلح ابراہم بن ناصربن طباطبا کا فارسی ترجمہ ہے جو محمدرضاعطائی نے کام ہے اور مرکز تحققانت رایانہ ای قائمیہ اصفہان ایرا ن نے شائع کی کے صفحہ255پر اعوانوں کا ہند آنے کا ذکر:۔ذکراسامی واردین بہ ھند از اولاد محمدبن حنفہا، از جملہ برخی از فرزندان علی بن محمدبن حنفہل: بعضی از فرزندان حسن بن علی بن محمداشھل بقیع فرزند عون بن علی۔صفحہ 332"علی بن اسھل بقیع بن عون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب(ع)،بازماندگانش عبارتنداز:علی بن علی۔وی فرزندانی داشتہ:موسیٰ،حسنع۔این دونزعبازماندگاندیاشتہ ند۔ومطابق مشجرہ:عیسیٰ،احمد،محمدوحسنا"۔
کتاب ہذاکے صفحہ 246پر درج ہے:۔"ذکراسامی واردین بہ نصیبین از اولاد اسحاق موتمن فرزند جعفر صادق(ع)از جملہ برخی از اولاد اسحاق موتمن:حسن بن محمدبن حسن بن اسحاق موتمن۔بازمندگانش عبارتنداز:ابوالحسن محمدوابوالقاسم احمدکہ۰ این دومعروف بہ پسران محمدیہ ھستند،زیرامادرشان رقہح دخترابوتراب محمد(عسل)فرزندعلی بن علی بن محمدبن عون بن علی بن محمد بن حنفہی است"۔
کتاب ہذاکے ص 192پردرج ہے:۔
"ذکراسامی واردین بہ طبرستان از اولاد عمراطرف،از جملہ برخی از فرزندان عبداللہ بن محمدبن عمراطرف:۱۔ابوالحسن یحییٰ بن حسن بن محمدصوفی پسر یحییٰ صوفی فرزند عبداللہ بن محمد بن عمر اطرف، مادرش حمدونہ دختر حسن بن علی بن محمدابن عون بن علی بن محمدبن حنفہر است۔بنابہ نقل این ابی جعفر وی فرزندانی داشتہ است“۔صفحہ 229پرعون قطب شاہ کی بین رقہم جو علی بن عبداللہ بن داؤدکی والدہ تھںد کا تذکرہ:۔علی بن عبداللہ بن داود، کہ در زندان از دناف رفت، مادرش رقہز دختر عون بن علی بن محمدبن علی بن ابی طالب(ع)۔
کتاب ہذامں درج مندرجہ بالا اقتباسات مںح عون بن علی بن محمدالاکبرالمعروف محمدحنفہق ؒبن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کاہندمں ہجرت کرنا اور بنی عون علوی قطب شاہی علوی اعوان کامصرمںن ہونا اورحمدونہ دختر حسن بن علی بن محمدبن عون بن علی بن محمدبن حنفہ سے ہونااور رقہر دخترابوتراب محمد(عسل)فرزندعلی بن علی بن محمدبن عون عرف قطب غازی جداعلیٰ قطب شاہی علوی اعوان بن علی بن محمد بن حنفہؒ کاشجرہ نسب اور ہندآمددرج ہے۔ مزید یہ کہ عون عرف قطب شاہ غازی کے سات پڑپوتوں 1۔علی بن علی،2۔موسیٰ بن علی،3۔حسن بن علی،4۔عیسیٰ بن علی،5۔حسنی بن علی،6۔احمد بن علی،7۔محمدبن علی بن محمدعسل بن عون بن علی بن محمد حنفہی بن حضرت علیؓ کے نام درج ہںد۔جس سے منبع الانساب فارسی اور مرات مسعودی فارسی اور مولوی ملنگ علی کے ریکارڈ اور تاریخ حدہری مںی درج شجرہ نسب کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے۔
تاریخ فرحوزشاہی فارسی(1285ء۔1357ء)
تاریخ فرحوزشاہی"(فارسی) معروف محقق سدّر ضاوء الدین برنی (1285ء۔1357ء)نے سلطان فر وزشاہ تغلق کے دورحکومت مں تصنف فرمائی کے صفحہ491 پردرج ہے۔ "سلطان محمد شاہ تغلق بعداز فارغ فتنہ عنر الملک از بنگرمؤعزیمت بطرف بہرائچ نمودوسپہ سالار مسعود غازی را کہ از غزاۃسلطان محمود سبکتگین بودزیارت کرد ومجاوران روضہ او زرہا وصدقات بسالر دادہ"ترجمہ:سلطان محمدشاہ تغلق فتنہ عن الملک سے فراغت کے بعد بانگرمؤ سے بہرائچ تشریف لائے۔ جہاں سالارمسعودغازی جو سلطان محمودغزنوی کے غازیوں مںع سیتھے کی قبرکی زیارت کی اور مجاوران روضہ و فقرا کو بہت سے صدقات سے نوازہ۔ بصرہ: ”تاریخ فر وزشاہی“(فارسی) تقریباً662سال پہلے 780ہجری مںو لکھی گئی۔اور یہ تاریخ فرشتہ سے بھی تقریباً ڈھائی سوسال پرانی کتاب ہے۔کتاب ہذا مںا سپہ سالارمسعودغازی کو سلطان محمودغزنوی کے ساتھ کے غازیوں مںط لکھاہے۔لہذاتصدیق ہواکہ سپہ سالارمسعودغازی سلطان محمودغزنوی کے ساتھ جہاد ہندمںہ رہے۔
منبع الانساب فارسی(830ہجری)
منبع الانساب فارسی کے مصنف سدّکمعن) الحق جھانسی مںا770-775 ہجری کوپد اہوئے آپؒ کا شمار نویں صدی ہجری کے معروف نسابہ مںد ہوتاہے۔منبع الانساب فارسی کے مترجم ڈاکٹرمفتی ارشاداحمدرضوی ساحلؔ شاہسرامی، علی گڑھ نے نے تقریباً چھ سوسالہ قدیم نسب کی کتاب کا اردو ترجمہ 2010ء بہ مطابق 1431ھ کو کاا اور اور مدرسہ فضالن مصطفی زہرہ باغ نئی آبادی علی گڑھ سے شائع کاب۔منبع الانساب کے ترجمہ کی ”تقدیم“مںط صفحہ29تا97سدرمعنر الحق جھونسوی مصنف کتاب ہذاکا احوال مفصل تحریر کای ہے۔صفحہ 77پرتحریر کرتے ہںک:۔حضرت معنم الحق جھونسوی کے والد ماجد حضرت سلطان سدّاشہاب الحق م 800ھ چالس سال کی عمرمںح اللہ کو پا رے ہوگئے۔اس وقت آپ نوجوان تھے لکنن خاندان کے بزرگوں نے آپ کی تعلمت و تربتہ کا بہترین انتظام فرمایا، آپ کی علمی قابلتا کا روشن ثبوت خود منبع الانساب ہے اور آپ کی روحانی عظمت کی کھلی نشانی یہ ہے کہ آپ کی درگاہ ممتاز طریقے سے موجود ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ آپ مردان خدامںق تھے اور آپ کی روحانی عظمتںی ہر کہ ومہ کو تسلمل تھںن۔ بعض تحریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ نے مسند درس بھی آراستہ کی اور کثرک خلق خداکوعلمی اور روحانی فوسض سے مالامال فرمایا۔تصنیپ سطح پر منبع الانساب کے علاوہ چند اور تصانف بھی تھں ، جن مںن آپ کا سفر نامہ حرمن طیبین خاص طور سے قابل ذکرہے۔حضرت سدّامعن۔ الحق قدس سرہ کو خاندانی سلسلہ سہروردیہ کی خلافت والدماجد سے کمسنی مںر حاصل تھں ۔
منبع الانساب فارسی 830ہجری کے مصنف سدّ معن الحق جھونسوی ؒ کی پد ائش و وفات کے حوالے سے صفحہ82پر رقم طراز ہںح:۔”حضرت کے باقی مراحل حا ت پردہ خفا مںم ہںع حتیٰ کے تاریخ ولادت اور سال وفات کا بھی علم نہںص البتہ منبع الانساب کے مندرجات سے پتہ چلتاہے کہ آپ کے چچا حضرت سدّیبایزید بن سدم شاہ عثمان اکبرمخدوم شاہ تقی الدین بن حضرت شعبان ملت قدس سرہ آپ کاوصال سترسال کی عمر مںب 830ہجری مںے ہوااس وقت منبع الانساب مکمل نہں ہوئی تھی اور آپ حاات تھے جب ہی اس سانحہ وصال کا اندراج منبع الانساب مںس ہوا۔مزید یہ کہ منبع الانساب کی تقریب تصنفک کے سلسلے مںی ذکرفرمایا ہے کہ اپنانسب نامہ جاننے کے لےس اپنے پرداداحضرت شاہ تقی الدین کی خدمت مںا حاضرہوئے حضرت تقی الدین 785ھ مںف فوت ہوئے اگر سد معن الحق قدس سرہ کی ولادت 770 و775ھ مںت مان لی جائے یینک 785مںض آپؒ کی عمر15سال مان لی جائے تو حضرت سد بایزیدکے وصال ]830ھ[ کے وقت آپ کی عمر مبارک 55سال تیک اور اس وقت آپ حا ت تھے اور منبع الانساب کی تصنفی مکمل نہں ہوئی تھی اس طور سے آپ کا وصال 830ھ کے سالوں بعد ہوا۔لہذاتصدیق ہوا کہ منبع الانساب کی تالفا کا آغازسدت معن الحق جھونسوی ؒ نے اپنے پرداداسدد شخی تقی الدین سے کاد جو785ھ مںک فوت ہوئے اور اختتام830ھ مںغ کاے۔منبع الانساب فارسی کے اردوترجمہ کے صفحہ87پر یوں تحریرہے:۔ ”منبع الانساب کی تلاش اہل علم کو عرصے سے تھی لکن یہ گوہر شب تاب کی مانند انسانی سمندرکی تہوں مںا روپوش تھا چند نسخے تھے بیا لکنح ان کی اطلاع عام طور پر لوگوں کو نہ تھی اور ذاتی کتب خانوں مںا اس کے نسخے ایسے چھپائے جاتے تھے جسےت کوہ نور کا ہرہا کہ کوئی اسے اچک نہ لے زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھتی رہی یہاں تک کے چھ صدیاں بت0 گئںم نہ اصل کتاب منظرعام پر آسکی، نہ اس کا ترجمہ“۔ مزید یہ کہ منبع الانساب فارسی کے حوالہ جات بہت سے مصنفین نے دیے ہںا جن محمدتاریخ قطب شاہی اعوان(2015 ء)تالفپ محمدکریم اعوان، تاریخ خلاصۃ الاعوان 2016ء تالفت محبت حسن اعوان،مُدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب 2017ء تالفو سد قمرعباس ہمدانی، ڈاکٹرمحمداقبال اعوان مولف گلدستہ اعوان 2019ء،تذکرہ اولابئے ہزارہ جلداول تالفے راقم مولف2020ء وغرتہ نے سدومعن الحق جھونسوی کی تالفد منبع الانساب کے حوالے دیئے ہں،۔
منبع الانساب کے مصنف نے قطب شاہی علوی اعوان قبلےج پر 600سال قبل شجرہ نسب تحریر فرماکراحسان عظم کا ہے۔اعوان قبلےا کی با ن کردہ صدیوں پرانی روایات کہ وہ حضرت علی ؓ کے فرزند حضرت محمدحنفہہ المعروف امام حنفس ؒ کی اولاد سے ہںو اور سلطان محمودغزنوی کے ساتھ جہاد کی غرض سے آئے۔منبع الانساب کے مندرجات سے تمام روایات درست ثابت ہوجاتی ہںر۔عون کی وجہ سے اعوان، اور عون کے عرف قطب غاز ی کی نسبت سے قطب شاہی کہلاتے ہں ۔کتاب نسب قریش عربی و المنتخب فی نسب قریش و خانر العرب عربی مںب ”عون بن علی بن محمدحنفہؒ “ کی اولاد ”بنی عون“ تحریر ہے۔ عون واحد ہے اور اس کی جمع ”اعوان“ ہے۔عون کی اولاد سے سالارمسعودغازی قطب شاہی علوی اعوان جو سلطان محمودغز نوی کے بھانجے تھے جس کی تصدیق مصنف منبع الانساب فارسی نے بھی کی ہے۔ منبع الانساب کے مطابق شجرہ نسب بذیل ہے:۔
"سالارمسعودغازی بن سالارساہوغازی بن عطااللہ غازی بن طاہر غازی بن طبف غازی بن شاہ محمدغازی بن محمدآصف غازی بن عون عرف قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن ابوالقاسم محمد حفال بن علی بن ابی طالب علہب السلام"۔
شجرہ نسب مصنف منبع الانساب: حضرت مخدوم سدّ معنب الحق قدس سرہ بن سدل شہاب الحق بن سدج جعفر بن سد شخ تقی الدین بن سدی علی مرتضیٰ شعبان ملت بن سدا بدرالدین بن سدف صدرالدین بن مرد سدا محمدمکی بھکری بن سدخ محامد بن سد احمد بن سد امجد بن سدب انور بن سد۔ منور بن سدق افضل بن سدب اکرم بن سدن محمدشریف بن سدد اشرف بن سدز نصراللہ بن سدن محمد اسماعلد بن سدد علی اشقر بن سدد جعفر تواب بن حضرت امام علی نقی بن امام جوادتقی بن امام موسیٰ علی رضابن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمدباقر بن امام زین العابدین بن امام عالی مقام حضرت امام حسن علہر السلام شہدب کربلا بن امرٰ المومننا مالائے کائنات علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔(منبع الانساب اردوترجمہ ص49)۔
"منبع الانساب" فارسی830ھ کے مصنف سدّ معن الحق جھونسوی کتاب ہذاکے صفحات 103و104پررقم طرازہں۔:۔
حضرت شاہ ابوالقاسم محمدحنف بن علی بن ابی طالب علہی السلام کہ حنفہل مشہوراست روزدوشنبہ سنہشانزدہ ھجرۃ بمدینہ ومدت شصت و پنج سال عمر یافت در سن احدی و ثماننع(ہشتادویک) در عہدعبدالمالک مروانی وفات یافت و جمعی از کتابہۃ دعویٰ کندکہ او آمدہ است و اوراسہ پسر بودمد ابوالہاشم وعلی عبدالمنان و سدرجعفر! وجعفر راپسری بود عبداللہ نام و علی عبدالمنان راپسری بود عون عرف قطب غازی وعون عرف قطب غازی را پسری بود آصف غازی و آصف غازی راپسری بودسدّرشاہ غازی وسدّ شاہ غازی رادوپسر بودندشاہ محمدغازی و شاہ احمدغازی درسبزوارکرفت چنانچہ بشترسادات سبزواری از نسل اواندعلی ھذاالقافس!سدّ حامدخان سبزواری کہ قبراودرقلعہ مانک پوراست از نسل سدّغ احمدغازی است چنانچہ بسافر فرزندان سدّا احمدغازی اندوسدّا محمدشاہ غازی کہ برادرکلاں سدّغ شاہ احمدغازی بود اورایک پسربودسدّ طب غازی اورایک پسردسدّ طاھرغازی اوراپسری بود سدّر عطااللہ غازی اورا پسری بودسدّہ شاہوغازی وسدّدشاہوغازی اوند ہمشررہ سلطان محمود غزنوی کتخدا بودندازویک پسر بود حضرت سدّس سعدرالدین سالارمسعودغازی و ایشان سادات علوی اندوازسادات و شرطاتی درہندہمراہ ایشان آمدہ اند وابوھاشم بن محمدحنف بن علیؑ آں است کہ عباساان رابخلافت بشارت دادوکتاب وصایاامر المومننو علی از وبستہ ونسل ایشان اکنون در شرہاز باشند ذکرپسران دیگر ونسل پسران دیگرحضرت شاہ مرتضیٰ علی بن ابی طالب علہ السلام کہ سوائے ازبطن حضرت فاطمہ علہب السلام بودند تمام شد۔ اردوترجمہ: حضرت شاہ ابوالقاسم محمدحنفر بن علی مرتضیٰ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا،محمدحنفہہ کے نام سے مشہورہںم آپ کی ولادت 16ھجری کو مدینہ منورہ مں ہوئی۔عمرمبارک پنسٹھ سال تھی۔۱۸ھجری مںا عبدالمالک بن مروان کے عہدحکومت مںہ پرمکے دن وصال ہوا۔کتابویں کا ایک گروہ دعویٰ کرتاہے کہ آپ قریب قاامت ظہورفرمائںل گے(اسی طرح کی اور بھی بعض بے سروپا حکایت آپ سے منسوب ہںے)۔آپ کے تنت صاحبزادے ۱۔ابوہاشم،۲۔علی عبدالمناف(اصل فارسی مخطوطہ میں علی عبدالمنان ہے)،۳۔جعفر۔آپ کے چودہ صاحبزادے اور دس صاحبزادیاں تھں لکنز نسل تند صاحبزادوں سے چلی:ابوہاشم جعفرعلی ادست اسرارہم(خاندان مصطفی،ص،۴۴ا)حضرت کاوصال مدینہ طبہ
0 تبصرے