plz

صوبیدار گل محمد اعوان ستارہ جرات کے حالات زندگی تنظیم الاعوان بلوچستان

صوبیدار گل محمد اعوان ستارہ جرات کے حالات زندگی
اعوان
.صوبیدار گل محمد اعوان ستارہ جرات کے حالات زندگی
ہر شخص اپنے ماضی، خاندان، نسل، خون، خاندانی روایات کے جاننے کا متمنی ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ شجرہء نسب ہی کے ذریعے اپنے خاندانی سلسلے کے بارے میں حقائق کی نشان دہی ہوتی ہے اگر ہمارے پاس شجرہء نسب موجود نہ ہو تو کسی طرح یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ ہم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اعوان شجرہء نسب کے بانی صوبیدار گل محمد اعوان ستارہ جرات کے تھوڑے سے حالات زندگی سے آگاہ کرتا ہوں۔
 صوبیدار گل محمد اعوان ستارہ جرات 1916 ء ضلع سرگودھا (اب ضلع خوشاب) بوٹی خان اعوان ڈھوک بھنگی موضع کھبیکی وادی سون سکیسر خوشاب میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کھبکی سے حاصل کی۔ان دنوں یہاں سرداری نظام نافذ تھا۔ جس کی وجہ سے یہاں پر مڈل یا ہائی سکول بننے کی کوئی امید نہیں تھی مگر گل محمد اعوان کو تعلیم میں آگے بڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے گاؤں مردوال (وادی سون) کے مڈل سکول میں داخلہ لے لیا۔ سکول کافاصلہ پچون میں قائم گھر سے کافی دور تھا اور اس وقت سواری کا بھی کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ انہوں نے دادی نیک بخت جوکہ ملک محمد خان قطبال آف مردوال کی والدہ ماجدہ تھیں کے پاس رہنا شروع کر دیااور وہاں مردوال سے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر 17 فروری 1934 ء کوانڈین فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اس وقت انگریزوں کاراج تھا۔ وہ خوبصورت نوجوانوں کو کھیلوں میں شامل کرنے کے خواہش مند ہوتے تھے۔ صوبیدارگل محمد اعوان ایک زمین دار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ وہ بچپن میں خوب دودھ پیتے تھے۔ انہوں نے فوج کی کھیلوں میں بڑی دلچسپی لی اور نہایت دلجمعی سے 800 میٹر دوڑ کو اپنی دلچسپی کا محور بنایا۔ صوبیدار گل محمد اعوان کے دواور بھائی تھے جن کا نا م ملک نور محمد اعوان جو کہ بعد میں صوبیدار ریٹائڑ ہوئے اور دوسرے بھائی ملک اللہ داد اعوان نے 1941 ء میں لڑائی کے دوران میدان جنگ میں اٹلی کے محاذ پر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائی۔ شہادت کے بعد گورنمنٹ برطانیہ نے اسے ایک مربع زمین اور ستارہ جرات سے نوازا۔ یہ تینوں بھائی کراس کنٹری ورلڈ لانگ جمپ کے کھلاڑی تھے۔ لکھنؤ میں کھیلیں ہو رہی تھیں۔ یہ تینوں مائی کے لال فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ آئے تو ایک انگریز عورت نے اٹھ کر ان تینوں بھائیوں کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا کہ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور مسلمانوں کے نام ہمیشہ بلند رہیں۔
    1947 ء کے شروع میں کلکتہ میں کھیلیں ہو رہی تھیں تو ان کھیلوں کے دوران ایک ہندو نے کھیل کے بھرے میدان میں اعلان کردیا کہ ہے کوئی مسلمان جو میرے مقابلے میں لانگ جمپ کرے، تو اس وقت صوبیدار گل محمد اعوان اکتیس برس کی عمر کے تھے مگر مقابلے میں نکل آئے اور اس ہندو کو شکست دیکھنی پڑی مگراس لانگ جمپ کے دوران صوبیدار گل محمد اعوان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ گورنمنٹ آف برطانیہ نے ان کابے انتہا علاج کرایا مگر وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہو گیا۔ صوبیدار گل محمداعوان کو علاج کے لئے سی ایم ایچ کوئٹہ میں داخل کرا دیاگیا۔ علاج کے دوران ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا دورہ ہوا تو انہوں نے اپنے استاد صوبیدار گل محمد اعوان کو پہچان لیا اور اپنے استاد محترم سے کہا کہ صحت تو خداوند کریم نے دینی ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔کیونکہ میں آپ کا شاگرد ہوں۔ تو صوبیدار گل محمد اعوان نے کہا کہ میں گھر سے کافی دور ہوں۔ مجھے پنڈ ی یا لاہور کے کسی ہسپتال میں بھجوا دیا جائے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جہاز کے ذریعے اپنے استاد محترم کو سی ایم ایچ لاہور داخل کروادایا۔ کافی عرصہ ملک گل محمد اعوان زیر علاج رہے لیکن صحت مندنہ ہوئے اور 1954 کوریٹائرڈ ہو گئے۔ 
 گھر آ کر چارپائی پر پڑے رہتے تھے۔ اسی دوران اپنی ڈیرے والی مسجد میں ایک بابا سنیاسی رات بسر کرنے کے لئے ٹھہرا تھا۔تو صوبیدار گل محمد اعوان کے والد بابا بوٹی اعوان رات کو نماز تہجد کے لئے آیا کرتے تھے۔انہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدی مسجد کے حجرے میں پڑا ہوا ہے۔ بابا بوٹی خان نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو تو اس نے جوابدیا کہ میں ایک سنیاسی ہوں۔رات گزارنی ہے مگر سردی نے برا حال کر دیاہے۔ بابا بوٹی خان اس کے لئے گرم دودھ اور باجرے کی روٹی لے کرآئے۔ جب وہ باباسنیاسی جانے لگاتو اس نے کہاکہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ بابا بوٹی خان نے کہا کہ میرا ایک بیٹا چلنے پھرنے سے محروم ہے۔ اس کے لئے کوئی دوا دے دو۔ سنیاسی نے دوائی دی جس کے استعمال سے صوبیدار گل محمد اعوان بالکل ٹھیک ہوگئے۔ پھرانہوں نے شجرہ نسب قوم اعوان ترتیب دینا شروع کر دیا جوکہ ٓآج تک اعوان قوم کی پہچان ہے اور رہتی دنیا تک یاد رہے گی۔ اس کے علاوہ پٹواری کے کام بڑی گہرائی تک جانتے تھے۔ انہوں نے تمام علاقے کو ماحولیات کے مطابق تقسیم کیا۔تمام لٹھ پر زمین کی تقسیم کی۔ بخاری مسلم شریف کاایک صفحہ جیب میں ہر وقت رکھا ہوا ہوتا تھا جس کی تحریر تھی۔ کہ کسی کی زمین دبانے کی سزا کیا ہے۔ حضرت یعلی بن مرہ کی روایت میں ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا جس نے کسی شخص کی ایک بالشت زمین ظلم سے دبا لی تو یہ زمین قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق ہو گی اور ایک بالشت کی مقدار میں ساتوں زمین تک ہو گی۔ یعنی زمین کے ساتوں حصے پورے کئے جائیں گے۔
   صوبیدار گل محمد اعوان 2 جون1987 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اور ان کو اپنے گاؤں میں دفن کیا گیا۔ اللہ تعالی اس عظیم مرد مجاہد کو جنت فردوس میں جگہہ دے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے